Latest News


Header Ads Widget

Responsive Advertisement

احساس ۔ سیدہ راحت فاطمہ

 احساس



روزمرہ زندگی میں بےحد مصروف ہم عام سے لوگ بغیر تدبر کے ایک ہی لکیر پر چلتے جاتے ہیں۔تک

وہی صبح کی بھاگ دوڑ، مصروف کن دوپہر اور شام کو سورج کے ساتھ ڈھلتے ہوئے ہم، علاوہ ازیں چند عبادتیں اور  مخصوص سےکچھ اہتمام بس ۔۔۔ یوں ہی دن، مہینے، سال، عمر، عرصہ گزرتا چلا جاتا ہے۔

یہ ایک، دو یا چند لوگوں کا نہیں بلکہ ہم سب کا مشترکہ احوال ہے۔

کرہ ارض پر پائی جانے والی تمام تر مخلوقات کے بنیادی اطوار میں عبادات، رہائش، اپنی اولاد کی پرورش، رزق کی تلاش اور دفاع اپنے اپنے الگ رنگ و انداز میں پائے جاتے ہیں۔

ہم انسان بھی انھی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں بس خدشہ اس امر کا ہے کہ ہم انھی میں سے ایک نہ رہ جائیں۔

قابلِ غور یہ ہے کہ "اشرف المخلوقات" ہونا محض "برائے فخر"  نہیں بلکہ اس منفرد شرف کو قائم رکھنے کی زمہ داری کا حامل بھی ہے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ صرف اہل زبان ہونا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت (شعور) ہم انسانوں کو اشرف المخلوقات جیسے افضل منصب پر فائز کرنے کے لیے کافی ہے تو آپ تدبر، غور اور فکر سے دوبارہ جائزہ لیجئے اور بطور انسان اپنے اعلیٰ مقام کو پہچانیئے۔

تمام تر مخلوقات کے بنیادی اطوار میں سبھی فعل صرف اپنی ذات تک محدود ہوتے ہیں پھر چاہے وہ گھر بنانا ہو یا اولاد کی پرورش، رزق کی تلاش ہو یا اپنا دفاع۔۔۔ سب کچھ اپنی ذات تک محدود اور بس۔۔۔۔

اشرف المخلوقات کی تعریف دراصل تمام تر مخلوقات کے بنیادی اطوار کے محدود دائرہ کار کی حدود کے تجاوز سے شروع ہوتی ہے۔اور وہ تجاوز درحقیقت ایک ہی چیز پر منحصر ہے جو کہ "دوسروں کا احساس" کہلاتی ہے ۔

انسان نے اپنی عقل سمجھ شعور اور زبان کے ساتھ اپنے لیے رزق کمایا بلکل ویسے ہی جیسے ایک بے شعور، بے زبان اور کم عقل پرندے نے اپنے لئے رزق تلاش کیا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔ اور اس طرح دونوں ہی فقط اپنی اپنی ذات تک ہی محدود رہے۔

اب اگر عقل، سمجھ، شعور اور زبان کے ساتھ ساتھ  "احساس" بھی شامل کر لیا جائے تو اپنے ساتھ دوسروں کی بھوک کےخیال جیسے جذبات بھی وجود پزیر ہوجاتے ہیں۔

اور پھر جب احساس سے سرشار  جذبات کا حامل انسان اپنی ذات کے محدود دائرہ کار سے تجاوز کر کے اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے بھی تگ و دو کرتا ہے تو درحقیقت کسی دوسرے کا یہی احساس اسے "اشرف المخلوقات"کے منصب پر فائز کرتا ہے۔

آئیے ہم اپنی روزمرہ عام سی زندگی کے تمام معاملات میں استطاعت کے مطابق دوسروں کا احساس شامل کریں۔ اپنے اردگرد، حلقہ احباب، اہل محلہ، دفتر، کالج، سکول، کاروبار، رشتہ دار حتیٰ کہ اپنے اردگرد موجود دوسری مخلوقات، چرند پرند سب ہی کے لیے"احساس" کے جزبے کے تحت  آسانیاں پیدا کریں اور مددگار ثابت ہوں۔

اگر کسی  بھی طرح کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو کم از کم دوسروں سے بات ہی حوصلہ افزا کریں۔ حوصلہ افزا بات کرنا بھی ایک طرح کا احساس ہی ہے۔

یاد رکھیئے کرہ ارض پر موجود تقریباً 87 لاکھ سے زائد مخلوقات میں سے صرف ہم انسان ہی ایک واحد مخلوق ہیں جسے اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اور اس شرف کی بنیاد عقل و شعور اور زبان کے علاوہ دوسروں کے لیے "احساس" پر بھی مبنی ہے۔


تحریر: سیدہ راحت فاطمہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے