سراب منزلیں
زندگی کے عام معاملات میں ہمارے چھوٹے چھوٹے رویے اور ردعمل بظاہر اہم نہیں لگتے لیکن معاشرے کی عکاسی انہی سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے یہی غیر اہم رویے اور ردعمل ہمارے معاشرے کے مستقبل کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ہم سب اس معاشرے کی اکائیاں ہیں۔ ہمارا ہر مثبت اور منفی رویہ اور ردعمل بےشک ہماری نظر میں بہت معمولی ہو لیکن معاشرے کے مستقبل کا تانا بانا ضرور ہوتا ہے۔
اپنی جدوجہد اور کاوش کو بے مقصد ضائع نہ کریں۔کسی بھی غیر حقیقی چیز کے لئے خود کو مضطرب نہ کریں۔ ہمارے معاشرے میں خود کو اپنے ہی حلقہ احباب میں منفرد اور اعلیٰ دکھانے کی مقابلہ بازی ہمارے معاشرے کا ایک عام سا رویہ ہے جس میں اکثریت مبتلا ہے۔ اطوار رہن سہن سے لے کر لباس تک ہر تگ و دو سوائے دوسروں کو متاثر کرنے کے کسی دوسرے مقصد کی حامل نہیں۔
ہمارے معاشرے کی اکائیوں میں یعنی کہ ایک عام فرد کے رویے میں حقیقت پسندی ناپید ہوتی جا رہی ہے اور معاشرا اندھی تقلید اور بےجا مقابلہ بازی کی گھٹن میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔
ہر معیار کی ایک تعریف ہوتی ہے لیکن نجانے کیوں ہمارے معاشرے میں "امیر" کی بالکل متضاد تعریف رائج ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ ایک عام سا رویہ ہے کہ اگر کسی کے پاس کوئی اچھی گاڑی، خوبصورت گھر ہو اور وہ کسی مہنگے برانڈ کا لباس زیب تن کئے ہو تو ہمارے کاغذوں میں وہ شخص "امیر" ہی لکھا ، پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک بلکل غیر حقیقی بات ہے۔
حقیقت پسندی بہت اہم چیز ہے۔ اس کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے کسی بند گھٹن زدہ کمرے کی کوئی روشن اور ہوا دار کھڑکی۔ جو اپنے وجود سے اس بند کمرے کو کشادگی اور گھٹن سے آ زادی دیتی ہے۔
اگر حقیقت پسندی کی کھڑکی سے دیکھیں تو امیر ہونے کا مادی اشیاء کے حصول سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔
کسی مہنگے برانڈ کا لباس زیب تن کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری شخصیت بہتر ہو گئی ہے حالانکہ شخصیت کا اصل نکھار اچھی سوچ اور اچھے کردار سے ہوتا ہے۔
ہم شاندار گاڑی کا انتخاب متاثر کن سمجھتے ہیں جبکہ سفر کو اس کی منزل پر کششِ بناتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مہنگے ترین پرفیوم ہماری شخصیت کو سحرانگیز بناتی ہیں لیکن درحقیقت اچھی نفیس گفتگو کسی بھی شخصیت کا سب سے خوشبو دار تعارف ہوتا ہے۔
مسافتوں اور راستوں کا فرق جانیئے۔ مسافتیں صرف فاصلے ہیں اور راستے منزل سے مشروط ہوتے ہیں۔
اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں خود کو کسی بھی اندھی گھٹن زدہ تقلید اور بےجا مقابلہ بازی کا حصہ نہ بنائیں۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جہاں مطمئن ہیں دراصل وہیں کامیاب ہیں۔
اگر آپ کے دن کا آغاز کسی بزرگ کی دعا لے کر ہو رہا ہے، اور شام کو کوئی آ پ کی واپسی کا منتظر ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے کنبے کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، اوراگر آپکا کوئی ایسا دوست، والدین، ہمسفر، اولاد، یا بہن بھائی ہے جو آ پ کے خلوص سے مخلص ہے اور سب سے بڑھ کر اگر آپ کے پاس اپنے کنبے اور عزیزوں پر خرچ کرنے کے لیے وقت ہے۔ تو یقین جانیئے درحقیقت آ پ ہی دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔
معاشرے میں رائج بے جا مقابلہ بازی اور ظاہری نمود و نمائش سے بھرپور رویوں کو خود پر حاوی نہ ہونے دیجئے۔ اطمینان کا دامن تھامے رہیں، مادی اشیاء کے حصول کے چکر میں حقیقی خوشیوں کو مت گنوائیں۔
ایک عام فرد کا رویہ معاشرے کے رجحان کی اکائی اس کی بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
کسی بھی معاشرے کے مستقبل کا رجحان وہاں موجود انتہائی قابل اقلیتی افراد پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کے مستقبل کی تخلیق یہ عام اکثریت ہی کرتی ہے جس کا ہم بھی حصہ ہیں۔
آئیے ہم بطور عام فرد، خود معاشرے کے رویوں کی بہترین اور ذمہ دار اکائی بنائیں۔ اپنی آ نے والی نسلوں کو ایک ایسا معاشرا دیں جو اندھی تقلید، بےجا مقابلہ بازی، ظاہری نمود و نمائش، نفسا نفسی، دوسروں کو متاثر کرنے کی تگ و دو اور بے مقصد اضطراب جیسے رویوں سے پاک ہو۔
آئیے ہم اپنی ترجیحات، معیار، رویوں اور ردعمل کو از سر نو ترتیب دیں۔ اور معاشرے میں رائج ہر رویے کو سراب منزلوں کے بجائے حقیقت پسندی کی طرف گامزن کریں۔
تحریر: سیدہ راحت فاطمہ
0 تبصرے