سب سے پہلے تو میں اپنے اللہ کا شکر بجا لاتی ہوں جس نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں مجھے ہدایت سے نوازا اللہ پاک عاجزہ کو مرتے دم تک ایمان پر قائم رکھے آمین
اب میں بتاؤں گی کہ میں مرزائیت کی گندی ترین جماعت میں پیدا ہونے کے باوجود اسلام کی طرف کیسے آگئی
ویسے تو بے شمار واقعات تھے جو مجھے مرزائیت سے تائب ہونے اور اسلام قبول کرنے کا موجب بنے جن میں سے ہر واقعہ اپنی نوعیت کا انتہائی تکلیف دہ ہے لیکن سب سے زیادہ وجہ میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بنی جس میں میں کسی قسم کا کمپرومائز ہرگز نہیں کر سکتی تھی یہ لوگ اپنے جھوٹ اور مکر و فریب سے بالکل اپنے لعنتی نبی مرزا کی طرح ہیں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ کم اور مرزا کا زیادہ کرتے تھے
یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے مرزا کو آخری نبی کہتے تھے اور مرزا اپنی کتاب میں کہتا ہے میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں میں ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اور یاد رہے یہ لوگ مرزا کو پہلے صرف مجدد پھر مہدی معود اور پھر بعد میں آخری نبی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں
مرزا کشتی نوح میں بکواس کرتا ہے کہ
میں اللہ کے نوروں میں سے آخری نور ہوں
ایک طرف مرزا کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں دوسری طرف کہتا ہے میں اللہ کے نوروں میں سے آخری نور ہوں اگر اس کی بات مانی جائے کہ جس کے مطابق آپﷺ کے بعد بھی نبی آ سکتے ہیں یا بعد والی
میں یہ بات بہت سوچتی تھی کہ یہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں آخر ان کا مقصد کیا ہے ان دونوں باتوں سے اور پھر مجھے سب سمجھ آگیا میں نے ان سے پوچھا کہ مرزا صاحب نے پہلے اپنے آپ کو مجدد کہا پھر مہدی اور پھر آخر میں نبی آخر انہوں نے ایک ہی دفعہ کیوں نہ نبی ہونے کا دعویٰ کردیا تو جواب ملتا ہے کہ اللہ پاک نے اسی طرح مرزا صاحب کو ہدایت فرمائی تھی جو یہ سب کچھ اپنی کتابوں میں پہلے سے لکھ چکے تھے جیسے جیسے اللہ پاک بتاتا گیا مرزا صاحب دعوے فرماتے گئے میں نے ان سے پوچھا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آ سکتے ہیں تو پھر کیا اور بھی نبی آئیں گے تو جواب ملتا کہ آئیں گے کیوں نہیں کیا اب اللہ غریب ہوگیا ہے نعوذ باللہ
میں پھر پوچھتی کہ اگر اور بھی آئیں گے تو پھر مرزا صاحب نے کشتی نوح میں کیوں لکھا کہ میں اللہ کے نور میں سے آخری نور ہو یا پھر اگر نبی آ سکتے ہیں تو پھر ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی نشانیاں بتائی ہیں تو مرزا صاحب کی نشانیاں بتائی ہیں جن کو شناخت کے لئے استعمال کیا جائے کہ اب آنے والے نبی یہ ہے
لیکن میرے ان سوالوں کے جواب میں مجھے سخت ڈانٹ کھانی پڑتی کہ جتنی ہوں اتنی باتیں کرو یہ سب تمہارے سمجھنے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں یہ بڑوں کے مسئلے ہیں لیکن میں چُپ نہ رہتی اور ضد کرتی مجھے مطمعن کریں یہ چھوٹی بات نہیں ہے یہ ایمان کی بات ہے جو ہر مسلمان کو سوچنی ہے لیکن کوئی مجھے مطمعن نہ کرتا
اسی طرح ایک دن میرے سوالوں سے تنگ آکر بڑے ماموں نے امی سے کہا کہ اسے اسکول سے اٹھوا لو یہ کوئی چاند چڑھائے گی اور ہمیں بد نام کرے گی تم دیکھ لینا یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا کہ بچائے اس کےکہ مجھے مطمعن کرتے الٹا مجھے ڈانٹا ڈپٹ رہے ہیں اور سکول سے اٹھانے کی باتیں کر رہی ہیں جبکہ اسلام تو بہت آسان ہے
جب میں نے اپنے سوالوں کے جواب مانگے تو انہوں نے بجائے اس کے کہ مجھے جواب دیتے الٹا بےعزت کیا تو مجھے بھی غصہ آگیا اور میں نے کہا کہ اگر میرا مذہب میرے سوالوں کے جواب بھی نہیں دے سکتا تو میں اس مذہب کو نہیں مانتی اور مجھے تو لگتا ہے کہ مرزا صاحب نے اس مذہب کی بنیاد ہی اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا ثابت کرنے کے لئے رکھی ہے کیونکہ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں اور دوسری جگہ اپنے آپ کو اللہ کے نور میں سے آخری نور بھی کہتا ہے مجھے اس سوال کا جواب چاہیے بس پھر کیا تھا میرے اس لہجے سے ماموں کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے مجھے بہت مارا اور معافی مانگنے کا بولا لیکن میں نے کہا کہ میں معافی کس بات کی مانگو میرا قصور کیا ہے انہوں نے بتایا کہ میں بدتمیز ہوں زبان دراز ہوں بدلحاظ ہوں اور میں وقت کے خلیفہ جس کو اللہ خود چُنتا ہے اس پر الزامات لگاتی ہوں بڑے ماموں نے امی کو سختی سے کہا کہ اب اسے سکول نہیں جانے دینا یہ ہم سب کو ٹنگوا کر دم لے گی انہوں نے میری امی کو سخت سست کہا کہ تم نے اس کی تربیت میں بہت کوتاہی کی ہے اس کو تمیز نہیں سکھائی اس دن مجھے بہت مار پڑی لیکن میں نے معافی نہیں مانگی جس کی وجہ سے وقفے وقفے سے میری دھونائی ہوتی رہی لیکن میرے اندر اس کی وجہ سے سچائی جاننے کی طلب اور بھی بڑھ گئی گی اس کے بعد اسکول جانا بالکل بند ہوگیا لیکن میرے لئے اللہ پاک نے راستے اور بھی آسان فرما دیئے کہ اس طرح میں فارغ وقت میں مرزا کے مختلف کتابیں پڑھنے لگی اور گھر والے بھی بہت مطمعن ہو گئے کہ کہ چلو ابھی کچھ سکون کے دن ہیں کیونکہ میں نے کافی دنوں سے کوئی سوال جواب نہیں کیا تھا حالانکہ میں نے بہت سے سوال لکھ لکھ کر محفوظ کر لیئے تھے کہ کوئی اچھا معتبر بندہ نظر آئے تو اس سے انفارمیشن لوں گی لیکن انہی دنوں دو واقعات آگے پیچھے ایسے ہوئے کہ ان دونوں واقعات نے میری دنیا ہی بدل کر رکھ دی
نوٹ:اگر محترمہ رضوانہ بیگم نے اس سے آگے تحریر لکھی تو اسی پوسٹ میں اپ ڈیٹ کی جائے گی ۔ ادار آواز میڈیا گروپ
قسط نمبر ۲
اسی دوران ایکدن جماعت کی عورتین گھر آئی ہوئیں تھیں کہ میری چھوٹی سسٹر کو یکدم کوئی دورہ سا پڑ گیا وہ بہت ہی حسین تھی اسے دیکھ کر وہ عورتیں میرے بابا کو بولیں کہ نصیر صاحب آپ اس بچی کا علاج کیوں نہیں کرواتے کسی اچھے ڈاکٹر سے یہ سن کر میرے بابا کی شکل اتنی عجیب و غریب ہو گئ چہرے پر اتنی بیچارگی کہ آج بھی مجھے ان کی بےبسی سے بھر پور صورت نہیں بھولی میرے بابا نے ان کو بتایا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں بچی کے لیئے اور وہ عورتی چونکہ ہمیں لینڈ لارڈ سمجھتی تھیں حیرانی سے بولیں آپ کے پاس بچی کے علاج کے لیئے بھی پیسے نہیں ہیں تو بابا نے ان کو بتایا کہ سارے پیسے بی بی ناصرہ کے نئے گھر کے فرنیچر پر لگا چکا ہوں لیکن اب پچھتارہا ہوں کہ مین نے پہلے عقل کیوں نہیں کی
آپ لوگ یقیں کریں کہ بابا سے یہ سنتے ہی مجھے پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں غصے سے بولی میں لے کر آتی ہوں پیسے اور باہر کی طرف دوڑ لگادی میرے پیچھے میرے دو کزن اور ایک بھائی بھی بھاگا ہم بھاگتے بھاگتے بی بی ناصرہ کے گھر کے گیٹ پر پہنچ گئے اور میں نے زور زور سے ناکنگ شروع کر دی تو اندر سے غصے بھری بوئی آواز آئی کہ کون بد تمیز ہے اور ساتھ ہی چوکیدار نے دروازہ کھول دیا ہم نے دیکھا سامنے ہی برآمدے میں اسٹوو پر ساون کی بارش کی میٹھی روٹیاں بن رہی تھیں
مجھے اور بھی غصہ آیا میں نے زور سے بولا ادھر میری بہن مر رہی ہے اور ادھر آپ لوگ میٹھی روٹیاں کھا رہے ہیں پہلے ہمارے پیسے دیں بعد میں میٹھی روثیاں کھانا یہ سن کر اسے بہت غصہ آیا اور بولی تم لوگ ان پیسوں پر بیٹھے ہوئے ہو جو ہم نے دینے ہیں دفعہ ہوجاؤ یہاں سے جب پیسے ہونگے مل جائیں گے اور سأتھ ہی بولی آجاتے ہیں منہ اٹھا کر للو پنجو موسم کا سارا مزہ کرکرا کر دیا یہ سن کر تو مجھے بہت ہی غصہ آیا اور مینے بھی اسی کے لہجے میں بولا للو پنجو ہم نہیں تم لوگ ہو پیسے ہم نے نہیں آپ نے دینے ہیں ہمارے مجھے پیسے چاہئیں ابھی اسی وقت بس پھر کیا تھا ناصرہ نے چوکیدار کو اشارہ کیا اسنے پاس ہی پڑی ہوئی آرمی سٹک اٹھائی اور میری دھنائی شروع کردی لیکن مجھے تو درد کا پتہ ہی نہین تھا بلکل بھی بس پتہ تھا تو پیسوں کا جس سے میری بہن کا علاج ہونا تھا وہ مجھے مارتا رہا پھر ناصرہ نے ایک پرچی پر کچھ لکھا اور چوکیدار سے بولا کہ یہ اس کے باپ کو دو اور کہو کہ اسے خود سزا دے نہین تو ہمأرے حوالے کر دے ہم بگڑے ہوؤں کو سیدھا کرنا اچھی طرح جانتے ہیں
پھر چوکیدار نے مجھے بازو سے پکڑا اور گھسیٹتأ ہوا ہمارے گھر لے کر آگیا اور وہ پرچی ابو کو دیدی ہمارے آنے سے پہلے جماعت کی عورتیں امی کو ساتھ لے کر میری بہن کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئ ہوئی تھیں چوکیدار نے پرچی دی تو بابا نے پڑھ کر پوچھا کہ تم نے بی بی جی کے ساتھ بد تمیزی کی ہے مین نے بولا انہوں نے مجھے مارا ہے تو چوکیدار نے بابا سے بولا اس سے بولو ہاں یا نہ میں جواب دے کہ اسنے بی بی جی کو للو پنجو کہا کہ نہیں تو مینے بولا ہاں کہا ہے لیکن پہلے انہںوں نے کہا تھا لیکن بابا نے میری بات ہی نہیں سنی انکو بہت غصہ آیا کہ میری بیٹی کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ اتنی رسپیکٹ ایبل ہستی کو للو پنجو بھی کہ سکتی ہے بس انہوں نے بھی مجھے اسی چوکیدار سے وہ ہی سٹک جو وہ اسی نیت سے لے کر آیا تھا لی اور مجھے بہت مارا ابھی بابا مار ہی رہے تھے کہ جماعت کی عورتیں امی کے ساتھ واپس آگئیں اور یہ کہ کر بڑی مشکل سے بچایا کہ کیا بچی کو مار ہی دیں گے ہوش کریں نصیر صاحب کم از کم بچی کی بات تو سن لیں اور یہ سن کر بابا نے اپنا ہاتھ روک لیا اور اس کے ساتھ ہی وہ مکار چوکیدار دم دبا کر نکل گیا
اب بعد میں سب نے میری بات سنی اور مجھ سے ہمدردی اور محبت کی کہ بچی حق پہ ہے اور ان سب نے کہا کہ ہم سب جا کر بی بی ناصرہ کو سفارش کریں گی کہ آپ کے پیسے جلد دےدیں اور اب میرے بابا کو بھی ہوش آگیا کہ ان کو میری بات سننی چاہییے تھی انہوں نے مجھے بہت پیار کیا لیکن میرا دل ایک بہت بڑا فیصلہ کر چکاتھا کہ مین اس جماعت میں ہر گز نہیں رہوں گی لیکن چونکہ بہت چھوٹی تھی اور رہتے بھی ربوہ میں تھے اور میں وہان سے نکل کر کہاں جاؤں گی کچھ پتہ نہی تھا اس لیئے اللہ پاک سے ہر وقت دعا کرتی کہ یا اللہ پاک مجھے اپنے حبیب صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے دین میں شامل فرمادے أمین اور میں اسی دن سے موقعہ کی تلاش میں رہنے لگی
0 تبصرے