کراچی اپنے جن فرزندوں پر تاقیامت فخر اور ناز کرتا رہے گا ان میں سرفہرست غازی عبدالقیوم ہیں جنہوں نے یہاں مختصر عرصہ گزارا لیکن اس شہر کی تاریخ میں امر ہوگئے اور کراچی کا کوئی تذکرہ ان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ وہ 1910 ء کے کسی مہینے میں ہزارہ کے گائوں غازی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام عبداللہ خان تھا کم عمری میں ہی والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے گھرکا دینی ماحول اور محلے کی مسجد کے پیش امام کی رفاقت نے ان کو پابند صوم و صلوٰۃ بنادیا 24 سال کی عمر میں شادی ہوگئی جب ذمہ داریوں کا بوجھ پڑا تو حصول روزگار کے لئے کراچی کا رخ کیا یہاں انہیں کوئی ملازمت نہ ملی تو تانگہ چلانے لگے ۔ رہائش رام سوامی کے علاقے میں تھی جو بھی آمدن ہوتی اس میں اپنی دلہن ،بوڑھی والدہ اور ضعیف چچا کی کفالت کرتے۔
ہزارہ کے گائوں غازی میں 1910 ء کے لگ بھگ عبداللہ نامی شخص کے گھر جب احمد عبدالقیوم کی ولادت ہوئی تو کسے پتہ تھاکہ یہ بچہ بڑا ہوکر آقاؐ کی حرمت پر جان نچھاور کردے گا لیکن چونکہ اس کی قسمت میں روز اوّل سے یہ اعزاز لکھا تھا اس لئے حالات ایسے بنے کہ وہ ہزارہ سے تلاش معاش میں کراچی پہنچے ۔ جو قیام پاکستان سے قبل کیماڑی سے گرومندر تک پھیلا ہوا تھا مذکور ہے کہ 24 سال کی عمر میں غازی عبدالقیوم کی شادی ہوگئی تھی اور 25ویں سال میں وہ صاحب گنبد خضریٰ کی عظمت کا تحفظ کرتے ہوئے جنت کو سدھار گئے۔ اپنی ضعیف والدہ ، نئی نویلی دلہن او ربوڑھے چچا کی کفالت کے لئے انہوں نے کوچوانی کا پیشہ اختیار کیا۔ 33ء میں حیدرآباد کے نتھو رام نے ’’تاریخ اسلام‘‘ نامی کتابچہ شائع کیا جس کا زہریلا مواد ’’رنگیلا رسول‘‘ اور اس نوع کی دوسری تحریروں جیسا ہی تھا جن میں عا م مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا گیا تھا اس لئے یہ پمفلٹ سامنے آیا تو مسلمانوںمیں اضطراب پھیلا۔ شیخ عبدالمجید سندھی جیسی ہستیوں نے اسے عدالت میں چیلنج کیا تو علما مشائخ نے اس پر صدائے احتجاج بلند کی جمعہ کے اجتماعات میں اس جسارت کی مذمت کی گئی اور عامتہ المسلین کوبتایا گیا کہ کس طرح چند فتنہ ذہن ماحول کو پراگندہ کررہے ہیں ۔ عاشقان رسولؐ کو کسی پل بھی چین نہ تھا ایسے ہی محبت کرنے والوںمیں ایک غازی عبدالقیوم بھی تھا جس نے جونامارکیٹ کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی تو اسے نتھو رام کی شر انگیزی کا پتہ چلا ۔ اس نے دل کے نہاں خانے میںموجود جذبہ محبت کا تقاضا جانا کہ محبوب رب کائناتؐکی شان میں گستاخی کے مرتکب کو جہنم رسید کردیاجائے۔ عدالت نے مسلم اکابرین کی اپیل پر کتابچہ ضبط کرکے ملزم کو محض ایک سال قید بامشقت اور جرمانے کا حکم سنایا تھا یہ فیصلہ جلتی پر تیل کا کام کرگیا ’’تاریخ اسلام‘‘ کے ہندو مصنف نتھو رام نے اس سزا کے خلاف بھی اپیل دائر کردی جس کی سماعت 34ء میں شروع ہوئی۔کراچی کی عدالت میں جس روز نتھو رام کے مقدمے کی سماعت ہونی تھی ا س سے ایک دن قبل غازی عبدالقیوم نے بازار سے ایک خنجر خریدار اسے دھار لگوائی او رکمرہ عدالت میں شناخت کے بعد ایک سمت بیٹھے نتھو رام کے پیٹ اور گدی پر اس طرح وار کئے کہ وہ اسی وقت اپنے انجام کو پہنچا عدالت میں افراتفری پھیل گئی ۔ کسی عدالتی اہلکار نے گرفتاری کے بعد غازی سے کہا کہ تم نے یہ کیا کیاتو ناخواندہ شخص نے جس کا دل جذبہ عشق رسول ؐسے سرشار تھا کمرہ میں آویزاں شاہ جارج کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خوبصورت جواب دیا کہ اگر یہ تمہارے بادشاہ کو گالی دیتا اور تم میں غیرت ہوتی تو اس کو سزا نہ دیتے اگلا جملہ تھا کہ اس نے تو میرے آقاؐ اور شہنشاہوں کے شہنشاہ کی شان میں گستاخی کی تھی اس لئے یہ اسی انجام کا مستحق تھا۔ وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے انہیں حراست میں لے لیا تو کسی مزاحمت کے بغیر انہوں نے خود کو قانون کے سپرد کردیا۔ ان کے مقدمے کی پیروی کراچی کے مشہور بیرسٹر محمد اسلم نے مفت کی لیکن غازی عبدالقیوم خان کا ایک ہی بیان تھا کہ آپ جو چاہیں کریںمجھ سے قتل کا انکار نہ کرائیں۔ اس سے میرے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔ بیرسٹر اسلم اس معاملے کو ایک اور تناظرمیںپیش کرنا چاہتے تھے کہ اسلام میں مذہبی پیشوائوں کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے اور انہوں نے اسی مقصدکے لئے صفائی کے گواہوں کی فہرست میں مولانا ظفر علی خان ، علمائے فرنگی محل ، علامہ اقبال اور دیگر کے نام بھی دیئے اور کہا کہ عبدالقیوم خود کو جس جذبے کے تحت قاتل قرار دیتاہے اس کی ترجمانی یہی شخصیات کرسکتی ہیں لیکن ان کے نکتہ کو مسترد کردیا گیا۔ بیرسٹر اسلم اس معاملے کو فوری انتقام قرار دینا چاہتے تھے لیکن عدالت نے غازی عبدالقیوم کو سزائے موت کا حکم سنایا اس نے یہ فیصلہ سن کر الحمد للہ کہا ۔اس کے بعدبھی غازی عبدالقیوم کے وکیل تگ و دو میں لگے رہے ۔ گورنر ممبئی کو رحم کی اپیل بھی بھیجی دوسری طرف پر یو ی کونسل نے رحم کی استدعا مسترد کی تو 19مارچ 35ء کو عاشق صاق کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ تاریخ فیصلے کے ٹھیک تین روز بعد کی ہے۔
غازی عبدالقیوم کی سزا کے فیصلے پر عمل درآمد کے نتائج کا حکومت کااندازہ تھا اس لئے غازی عبدالقیوم کی وصیت کے مطا بق نماز جنازہ شاہ غلام ر سول قادریؒ نے جیل ہی میں پڑھائی ۔ شاہ غلام رسول قادری اپنے عہد کے جلیل القدر بزرگ تھے اور وہ قادری مسجد سولجربا زار مقابل ہولی فیملی اسپتال میں مدفون ہیں آج کل ان کے پوتے صاحبز اد ا ہ فرید الدین قادری مصنف تذکرہ اولیا ئے قادریہ سجادہ نشین ہیں ۔ حکومت نے میوہ شاہ قبرستان میں خاموشی سے تدفین کرنا چاہی تو یہ خبر شہر میںپھیل گئی اورمسلمانوں نے انتظامیہ کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ غازی عبدالقیوم کا جنازہ میوہ شاہ قبرستان سے بہ صورت جلوس برآمد ہوا اور شہر کی سمت چلا تو پولیس نے فائرنگ کردی۔ اس سے قبل شہر میں دفعہ 144 نافذ کی جاچکی تھی۔ فائرنگ سے 130 کے لگ بھگ مسلمان شہید ہوئے اور متعد دزخمی۔ گل حیات انسٹی ٹیوٹ خیر محمد آریجا کے ڈاکٹر در محمد پٹھان نے بھی منگل 2 ما رچ99ء کے مضمون مطبوعہ روزنامہ ہلال پاکستان میں اس واقعے کا حوالہ دیا ہے۔
شیخ عبدالمجید سندھی اور محمد ہاشم گذدرنے بمبئی کی لیجسلٹوا سمبلی میں اس واقع پر احتجاج کیاکیونکہ سندھ کو اس زمانے میں صوبے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔وہ صوبہ بمبئی سے منسلک تھا انگریز کمشنر پورے علاقے کا نظم و نسق سنبھالتا تھا یہاں سے منتخب اراکین بمبئی کی مجلس قانون ساز میں بیٹھا کرتے تھے قائد اعظم کے چودہ نکات اور ایوب کھوڑو و دیگر رہنمائوں کی کوششوں سے سندھ کو 36ء میں صوبے کا درجہ ملا تھا 19مارچ1935 ء سندھ کی تاریخ کا المناک ترین دن تھا جب سیکڑوں مسلمان غازی عبدالقیوم کا جلوس جنازہ نکالنے کی پاداش میں جاں بحق ہوئے گو کہ بعدمیں انگریز حکومت نے زخمیوں او رہلاک شدگان کا معاوضہ بھی ادا کیا لیکن کراچی میں غازی عبدالقیوم کی شہادت او رسکھرمیں مسجد منزل گاہ کا واقعہ قیام پاکستان کی جدوجہد مزیدتیز کرنے کا سبب بنا ۔ سہ شنبہ 3 1ذی الحجہ 1353 ھ یعنی 19 ما رچ35 ء کو سرخروئی کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچنے والے غازی عبدالقیوم کی یاد تازہ کرنا ہر عاشق رسول ؐ کا فرض ہے۔ قابل فخر ہیں عبداللہ خان جن کے فرزند نے شاہ بطحاؐ کی حرمت پر جان نچھاور کی اور تاریخ کے صفحات میں امر ہوگئے۔ غازی عبدالقیوم آپ ہمیشہ زندہ رہو گے او رآپ کے مرقد مقدس پر انوار و برکات کی بارش ہوتی رہے گی۔ (انشا اللہ )
0 تبصرے