پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ کے خالق پروفیسر اصغر سودائی شعر و ادب میں نمایاں مقام رکھتے تھے، 1944ء میں قوم کو لازوال نعرہ دیا
از قلم :*( اشفاق نیاز* ۔۔۔۔ مؤلف تاریخ سیالکوٹ)
شہر اقبال کے ممتاز شاعر، ماہر تعلیم، دانشور اور تحریک پاکستان کے نامور کارکن ، خالق نعرہ پاکستان، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، پروفیسر اصغر سودائی شعر و ادب میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ شہر اقبال سے ان کو خاص عقیدت تھی کئی دہائیوں تک انہوں نے ادبی دنیا میں اپنا سکہ جمائے رکھا۔ نثری نظم اور موسیقیت کو شاعری کا حسن تصور کیا جاتا ہے اصغر سودائی کی شاعری میں موسیقیت ،موضوعات اور لفظی کاری گری انہیں دیگر شعراء سے منفرد کرتی ہے اصغر سودائی نے تعلیم و تدریس کے شعبہ میں بھی انفرادی مقام حاصل کیا اور شاعری کے فروغ میں ادبی تقریبات کا انعقاد بھی کیا۔ انہوں نے سیالکوٹ میں بہت سے کامیاب مشاعرے منعقد کروائے جو کہ کل پاکستان کی سطح کے تھے اور ان مشاعروں میں وہ نہ صرف نقابت کے فرائض انجام دیتے تھے بلکہ مشاعروں کو منعقد کروانے میں اپنی تمام تر توانائیاں بھی صرف کر دیتے تھے۔ اس کے لیے انہیں پاکستان کے ممتاز کالم نویس اور شاعر ناصر زیدی کی بھرپور معاونت حاصل رہی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ انہوں نے چھوٹے سے شہر سیالکوٹ میں رہ کر بھی اپنے نام کی عظمت کا ڈنکا بجائے رکھا برصغیر سے پہلے سیالکوٹ کے محلہ مجید میں دو معزز گھرانے آباد تھے یہ دونوں گھرانے مثالی تھے انہی میں اصغر سودائی پروان چڑھے اور اسلامیہ ہائی سکول سے مرے کالج اور مرے کالج سے اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے تدریس کے شعبہ میں قدم رکھا ۔گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے بطور لیکچرار اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور 1965 تک پرنسپل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں بعد ازاں گورنمنٹ علامہ اقبال کالج خادم علی روڈ سیالکوٹ کی بنیاد رکھی اور یہاں بھی بطور پرنسپل خدمات انجام دیں۔بعد ازاں ڈائریکٹر کالجز کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔
وہ اپنے شاگردوں کا بھی بہت احترام کیا کرتے تھے اور اپنے مخصوص انداز سے ان کی تربیت فرماتے اور انہیں معاشرے کا سرگرم رکن بنا کر قومی اور ملی فرائض کی ادائیگی کے لیے تیار کرتے تھے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ" کاش کبھی ایسا ہوتا کہ میرے لاکھوں شاگردوں کی بجائے مجھے صرف ایک اشفاق نیاز جیسا ہونہار شاگرد مل جاتا" یہ ان کی محبت اور عظمت کی دلیل ہے کہ وہ ہر ایک کا دل سے احترام کرتے تھے۔ان کو بطور شاعر تو سبھی جانتے ہیں مگر بطور نثر نگار بھی ان کی نثری تحریریں موجود ہیں جو انہوں نے سیالکوٹ کے مختلف شعراء اور مصنفین کی کتب پر " پیش لفظ" کی صورت میں تحریر کی ہیں وہ اردو زبان و ادب میں علمی اور ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں
پروفیسر اصغر سودائی کو علامہ اقبال سے بھی خاص لگاؤ تھا جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کو سیالکوٹ میں علامہ اقبال کی یاد میں قومی سطح کے مشاعرے منعقد کروانے کا اعزاز حاصل ہوا
اصغر سودائی کی منظر عام پر آنے والی کتب میں انکی زندگی کی بہترین شاعری شامل ہے جنھیں وہ اپنے شوق کی داستانیں قرار دیتے تھے اصغر سودائی کی تمام کتب جامعات کے کتب خانوں کی زینت بنائی جائیں تاکہ طلبہ اصغر سودائی کے فکر و نظر سے آگاہی حاصل کرسکیں جامعات میں اصغر سودائی کی شاعرانہ خدمات کے حوالہ سے سمینارز منعقد کروائے جائیں اور مختلف شعبہ جات کی زیر نگرانی اصغر سودائی کی خدمات پر انفرادی موضوعات کو عنوان بنا کر تقریری مقابلہ جات کا اہتمام کیا جائے۔
0 تبصرے